اے آئی یا مصنوعی ذہانت کیاہے ؟
چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ باٹس اور مڈجرنی جیسے امیج جنریٹرز بڑی تیزی سے ایک سماجی حقیقت بن گئے ہیں،جنہیں سمجھنا اب نا گزیر ہوگیا ہے۔
امریکی ریاست نواڈا کے جگمگاتے شہر لاس ویگاس میں ہونے والے ’نیب شو ‘ نے جہاں کئی سوالوں کے جواب دئیے، وہیں ذہن میں جنم لیتے کئی نئے سوال اگلے سیشن کا انتظار کر رہے ہیں، اسی دوران اے آئی کے نظام میں بھی جدت رونما ہو رہی ہے

نوشین نقوی
گزشتہ بیس سال میں میری عمر کے لوگوں نے سائنس اور ٹینالوجی کے میدان میں جو دیکھا ہے وہ اپنی جگہ ایک انقلاب ہے اس قدر تیز ترین ترقی جس کا تصور ہی ہلا کے رکھ دیتا ہے۔۔۔پانی کی لہروں کی طرح دھیمے چلتے انٹرنیٹ سے لیکر کسی سونامی کی طرح سب کچھ اپنے اندر سمو لیتے انٹرنیٹ کی طوفانی اسپیڈ نے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ایسے میں چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی جیسے نیم انسانی ٹولز نئے در وا کر رہے ہیں۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے کیا ٹیکنالوجی کی دنیا ایک بٹن کے فاصلے سے سمٹ کر ہم انسانوں کا متبادل ذہنی درجہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے؟یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب بھی اے آئی ہمیں خود دے رہا ہے۔۔جگہ جگہ بیٹھ کر ہم ایک دوسرے سے اے آئی ٹولز کا تعارف پوچھ رہے ہیں ایسے ہی کئی سوال ذہن میں لئے ہم امریکی ریاست نواڈا کےجگمگاتے، بھاگتے دوڑتے، شہر لاس ویگاس میں پہنچے تو ’نیب شو ‘نے جہاں کئی سوالوں کے جواب دئیے تو کئی نئے سوال پیدا ہوگئے۔ایک سال میں متعدد بار منعقد ہونے والے نیب شوز اپنے اندر اتنے جدت لئے ہوئے ہے کہ اگلے سو سال کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔۔جدید ٹولز،ٹرمز اور ایجادات کے اسٹالز دنیا بھر کے سیاحوں،آئی ٹی ماہرین،کاروباری افراد اور میڈیا کے منسلک لوگوں کے لئے سمجھیں جنت کا منظر ہے۔سوشل میڈیا کی اسپیڈ اور پابندیوں سے جھوجھتے ہم جیسے ترقی پزیر ممالک کے افراد کے سیکھنے کو یہاں جہان آباد تھا۔جو چند چیزیں سمجھ آئیں وہ یہی تھیں۔
اے آئی‘ایک پروگرامنگ ہے۔کمپیوٹر آن کرنے جتنا آسان ،کارخانہ چلنے جیسا پیچیدہ۔۔۔

مشین لرننگ کا اہم مرحلہ ٹریننگ کہلاتا ہے جس میں ایک کمپیوٹر پروگرام کو بڑی تعداد میں ڈیٹا فراہم کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں ایسی معلومات شامل کی جاتی ہیں تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ یہ ڈیٹا کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس پروگرام کو مختلف ہدایات دی جاتی ہیں۔ڈیٹا سوالوں کے جواب ڈھونڈتا رہتاہے اور آپ کے ساتھ گفتگو بھی کرتا جاتا ہے اسی برین اسٹرامنگ کے نتیجے میں آپ اور پروگرام ایک دوسرے کے بارے میں جانتے جاتے ہیں۔یہ ہدایات کچھ ایسی ہوسکتی ہیں کہ: ’متعلقہ تصاویر ڈھونڈیں جن میں چہرے ہیں‘ یا ’ان آوازوں کی مماثلت یا فرق کی وضاحت کریں‘۔پروگرام پھر ڈیٹا کے اندر ایسے نمونے تلاش کرتا ہے اور آپ کے دیے گئے اہداف حاصل کرتا ہے۔

اس عمل کے دوران پروگرام کو وقتاً فوقتاً مدد درکار ہوتی ہے، جیسے ’یہ کوئی چہرہ نہیں‘ یا ’یہ دو آوازیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘۔ لیکن کمپیوٹر پروگرام جو کچھ ڈیٹا اور دیے گئے سراغوں کی مدد سے سیکھتا ہے وہ اے آئی کا ماڈل بن جاتا ہے اور ٹریننگ یا تربیتی مواد اس ماڈل کی صلاحیتوں کا تعین کرتا ہے۔
تربیتی عمل مختلف اقسام کے اے آئی کیسے بنا سکتا ہے، اسے سمجھنے کے لیے آپ مختلف جانوروں کو تصور کر سکتے ہیں۔لاکھوں برسوں کے دوران قدرتی ماحول میں مختلف جانوروں میں مخصوص صلاحیتیں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح جب اے آئی تربیتی ڈیٹا کو لاکھوں بار پرکھتا ہے تو اس میں خاص صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں جس سے مخصوص کاموں کے لیے اے آئی ماڈل بنتے ہیں۔
اسی طرح چیٹ باٹس بھی بار بار دہرائے گئے عمل کو پریکٹس کرتا ہے جس کے پروگرام میں بار بار الفاظ ڈالے جانے کی وجہ سے چاہے اسے معنی معلوم ہوں یا نہ مگر بہت بہتر طریقے سے یہ لکھے ہوئے لفظوں کے ساتھ ہمارے تعلق کو تبدیل کرنے کے دہانے پر ہیں۔
اگرسوچیں کہ چیٹ باٹس کو کچھ بھی لکھنا کیسے آتا ہےتویہ بھی اے آئی کی ایک قسم ہے جسے لارج لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایمز) کہتے ہیں اور انھیں بڑی تعداد میں تحریری مواد کے ذریعے تربیت دی گئی ہے۔ایل ایل ایم صرف انفرادی لفظ کو ہی نہیں دیکھتا بلکہ پورے جملے کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ اپنے تربیتی ڈیٹا میں کسی لفظ اورجملے کا موازنہ ملتی جلتی تحاریر سے کرتا ہے۔
لارج لینگویج ماڈل کی زبردست بات یہ ہے کہ یہ گرائمر سیکھ جاتا ہے اور خود بخود انسانوں کی مدد کے بغیر لفظوں کا مطلب سمجھ جاتا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ آئندہ 10 برسوں میں چیٹ باٹس کسی بھی شعبے میں ایک ماہر کے طور پر موجود ہوں گے۔ آپ ایک ماہر ڈاکٹر، ماہر استاد، ماہر وکیل یا کسی سے بھی بات کر سکیں گے اور اس نظام سے اپنے کام کروا سکیں گے،جس کے آثار نظر آنا شروع بھی ہوچکے ہیں۔
اے آئی اس وقت آواز ریکارڈ کرتا ہے جب آپ بولتے ہیں، یہ پس منظر کے شور کو حذف کر دیتا ہے، آپ کی باتوں کو فونیٹک یونٹس میں تبدیل کر دیتا ہے اور پھر اس کا موازنہ اپنی لائبریری میں موجود لینگویج ساؤنڈز سے کرتا ہے۔آپ کی باتوں کو پھر تحریر میں تبدیل کیا جاتا ہے جہاں سننے میں کسی غلطی کے امکان کی تصحیح کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ آپ کے سوال کا جواب دیا جاتا ہے۔
اس قسم کی مصنوعی ذہانت کو نیچرل لینگویج پراسیسنگ کہتے ہیں، یعنی قدرتی انداز میں کسی زبان کو سمجھنا۔یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو فون بینکنگ کے عمل میں کسی ادائیگی کرنے کی تصدیق سے فون سے شہر کا موسم دریافت کرنے تک سب چیزوں کے پیچھے کارفرما ہے۔

ارے یہ جو ہم ہمیشہ الجھے رہتے ہیں کہ کیسے ابھی ہم کچھ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں موجود اسمارٹ فون ہمیں اسے کےمتعلق لاتعداد آپشنز اور پوسٹس دکھانا شروع کر دیتا ہے۔تو بس جان لیں کہ ہمیں ہی علم نہیں مگر ہمارا فون پہلے ہی مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے۔ اے آئی کا ایک الگوردم آپ کی تصاویر میں مخصوص نمونوں یا رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے اور انھیں ایک ساتھ ایک فولڈر میں ڈال دیتا ہے۔اے آئی کو اس کمپیوٹر پروگرام کی ٹریننگ دینے کے لیے لاکھوں تصاویر دکھائی گئیں جنھیں آسان لفظوں میں بیان کیا گیا تھا۔
اگر آپ کسی امیج ریکیگنیشن اے آئی کو ’سائیکل‘ کے نام کی تصاویر دیں تو یہ سمجھ جائے گا کہ سائیکل کیسی نظر آتی ہے اور یہ کیسے کسی کشتی یا گاڑی سے مختلف ہوتی ہے۔
بعض اوقات اے آئی کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ ایک جیسی نظر آنے والی تصاویر میں باریکی سے فرق تلاش کیا جائے۔فیشل ریکیگنشین یعنی چہروں کی نشاندہی کا پروگرام اسی طرح کام کرتا ہے۔ یہ آپ کے چہرے میں مخصوص اور الگ فیچرز کو ڈھونڈتا ہے، جو کسی دوسرے چہرے میں نہیں ہیں۔
معاشرے میں اب اس تصور کے بارے میں سوچا جا رہا ہے کہ اس کا کاپی رائٹ اور ایسے اختراعی فن پاروں سے جڑی اخلاقیات کے تناظر میں کیا مطلب ہوگا جو کہ اصل فنکاروں، ڈیزائنرز اور فوٹو گرافرز کی سخت محنت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
نیب شو میں جہاں کاپی رائٹ پر بات کی گئی وہیں اتنے بڑے کیمروں اور میڈیائی ٹولز نے بتایا کہ جرنلزم کہیں نہیں جا رہی ختم نہیں ہو رہی،بس جدت کے ساتھ چہرہ بدل رہی ہے جو لوگ اس کے ساتھ چلنے یا اسے سیکھنے سے خوفزدہ ہیں ،وہ یہ ہوائی اڑا رہے ہیں کہ جرنلزم یا میڈیا اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے ۔اے آئی انسانی ذہن جس کا استعمال پوری زندگی میں ہم زیرہ برابر بھی نہیں کرتے اس کی تہوں کو کھولنے کے لئے ہے۔۔۔۔بلاوجہ سوال کرنے ،جواب پانے،ٹیکنالوجی سے سیکھنے اور حتی کہ اپنے عقلی سوالوں سے ٹیکنالوجی میں بہتری لانے کے لئے ہے۔جب ہم کوئی بے وجہ اور بے سبب سوال کریں گے جو اپنے اندر انفرادیت لئے ہو تو اس سے اے آئی پروگرامنگ کو بھی مزید کام کرنے کا موقع ملے گا اور اس میں جدت آتی جائے گی۔
سیلف ڈرائیونگ ہو یاحکومتی قانون سازی ۔۔۔ حفاظتی اصولوں کے ساتھ ساتھ اس بارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر ہر چیز مشینیں کنٹرول کریں گی توانسانوں کا کیا ہو گا؟ یہ ایک مکمل آٹومیٹڈ مستقبل کی راہ میں یہ ممکنہ رکاوٹیں ہیں۔
اس بارے میں بات کرنا یقینادلچسپ ہے کہ جب کارکردگی کے اعتبار سے انسان اور روبوٹ شاید آس پاس ہیں۔ لیکن آئندہ کچھ برسوں میں اے آئی سسٹم میں بہتری کی رفتار کے پیش نظر، یہ بحث بے معنی ہوجائے گی۔ کیونکہ یہ انسانوں سے بہتر انداز میں بہتر اسپیڈ اور بنا شور شرابا،خاموشی اور شرافت سے کام کرتے ملیں گے ۔
اے آئی ماڈل ابھی سے آپ کی زندگیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کو ادھار لینا چاہیے یا قرضے پر گھر لینا چاہیے۔ یہ آپ کو آن لائن اشتہارات کے ذریعے بتاتا ہے کہ آپ کو کیا خریدنا ہے۔کیا کرنا ہے کیا نہیں۔۔۔بدلتے دور کی ٹیکنالوجی سیکھیں اور اپنی زندگیوں کو بدل ڈالیں۔۔۔






