آزادی اظہار پر ایک اور قدغن۔۔۔

ہتک عزت قانون لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
نوشین نقوی
ہتک عزت قانون کے خلاف سنئیرصحافی اور پریس کلب لاہور کے جوائنٹ سیکرٹری جعفر احمد یار اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس (ورکرز) سکریٹری جنرل راجا ریاض کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔دائر کردہ درخواست میں وزیراعلیٰ، گورنر پنجاب اور پنجاب حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والا ہتک عزت بل گزشتہ روز قائم مقام گورنر ملک احمد خان کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے۔
ہتک عزت کے قانون کے خلاف درخواست ایڈووکیٹ ندیم سروراور شہباز اکمل جندران کی وساطت سے دائر کی گئی ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو وجہ بنایا گیا ہے ۔
درخواست گزاروں کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہتک عزت قانون آئین اور قانون کے منافی ہے، ہتک عزت آرڈیننس اور ہتک عزت ایکٹ کی موجودگی میں نیا قانون نہیں بن سکتا۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ہتک عزت قانون میں صحافیوں سے مشاورت نہیں کی گئی، ہتک عزت کا قانون جلد بازی میں صحافیوں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
سنئیر صحافی درخواست گزاروں کی جانب سےعدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ہتک عزت کے قانون کو کالعدم قرار دے کر درخواست کے حتمی فیصلے تک ہتک عزت قانون پر عملدرآمد روکا جائے۔

ہتک عزت قانون کیا ہے ۔۔؟
ہتکِ عزت یا ڈیفیمیشن ایکٹ 2024 کے تحت پاکستان کے سب سے بڑے اور طاقتور سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں ہتک عزت کا ایک نیا قانون منظور کیا گیا ہے ۔قانون کے تحت حکومت خصوصی ٹریبیونل بناکر چھ ماہ کے اندر ایسے افراد کو سزا دے سکےگی،جوفیک نیوز بنانے یا پھیلانے میں ملوث پائے جائیں گے ۔ان ہتک عزت ٹریبیونلز کوانتہائی اہم نوعیت کےاختیارات دئیے گئے ہیں،جن کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع تک جاری نہیں کر سکے گی۔جرمانے کے نوٹسز کی ابتدا ہی 30 لاکھ روپے سے شروع ہو گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہرجانے کی یہ سزا ٹریبیونل ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکم نامے میں سنایا سکتا ہے۔یعنی صرف ٹربیونل کا یہ محسوس کر لینا کافی ہے کہ وہ سمجھتا یے کہ سزا سنا دی جائے۔
آگے چلتے ہوئے ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں عبوری طور پر لی گئی ہرجانے کی رقم ہرجانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی،یعنی بات تیس لاکھ سے بھی آگے جائے گی ۔۔ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، اس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔

سنئیر صحافی اورجوائنٹ سیکرٹری لاہور پریس کلب جعفر احمد یار جو اس قانون کے خلاف عدالت جانے والی پہلی آواز ثابت ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں’’اگر میں اس قانون کے بارے میں یہ کہوں یہ اسمبلی فلور پر پیش ہونے سے پہلے ہی بنایا جا چکا تھا تو غلط نہ ہوگا۔آپ صحافیوں کی زبان کو کیسے قید کر سکتے ہیں پاکستان کا آئین صحافی سے اس کی خبر کا سورس( ذریعہ) تک پوچھنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن جیسے ہی یہ قانون ہمارے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتا ہے ہم صحافیوں کی خبر کو غلط کہنے والے پر ثابت کرنا بھی ضروری نہیں کہ اس کے مطابق ہم سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے۔ قانون کے مطابق ہتک عزت سے مراد غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت، نشریات اور پھیلاؤ ہے جس سے کسی شخص کو لگے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے، اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت سہنا پڑی ہے۔بس پھر وہ ٹربیونل کے پاس جائے۔باقی ٹربیونل خود سنبھال لے گا۔تاثر دیا جا رہا ہے کہ ٹربیونل کام کی ابتدا سے ہی تیس لاکھ ہرجانہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔کیا ایسا قانون کسی اور ملک میں ہے؟ کس جمہوریت میں سانس لینے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے؟‘‘

سنئیر صحافی اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس(ورکرز) کے سیکرٹری جنرل راجا ریاض اسی کیس میں عدالت جانے والے دوسرے درخواست گار ہیں وہ کہتے ہیں۔’’ابھی پنجاب حکومت صحافیوں اور اسٹیک ہولڈرز سے بات ہی کر رہی تھی ،کہ فورا قانون اسمبلی میں پیش کرکے پاس کروا لیا گیا۔گورنر پنجاب چھٹی پر گئے تو فوری طور پر قائم مقام گورنر پنجاب نے قانون پر دستخط بھی کر دئیے ۔حکومت کوئی وضاحت نہیں دے پا رہی کہ اسے کیا جلدی ہے یا حکومت پر کہاں سے پریشر ہے،دنیا بھر میں فیک نیوز کو قابو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں جب کہ پاکستان میں صحافیوں کو۔صحافت کے متعلق کی جانے والی قانون سازی میں صحافیوں کے تحفظات کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے کیسے کسی طبقے سے اس کے بنیا دی انسانی حقوق چھینے جا سکتے ہیں؟پاکستان کو دنیا بھرمیں پہلے ہی ’کنٹرولڈ جرنلزم‘ کا شکار سمجھا جاتا ہے۔ہمارے صحافیوں کو خبر دینے پر بلا خوف قتل کر دیا جاتا ہے،غائب کر دیا جاتا ہے،گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔حکومت پہلی قانون سازی ہمارے تحفظ کے لئے کرتی نہ کہ ہماری زبان بندی کے لئے۔۔۔مگر اس قانون کے تحت جس سفاکانہ انداز میں صحافی یا صحافت کی تعریف ہی یکسر بدل کر رکھ دی گئی ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ابھی بھی دیر نہیں ہوئی حکومت ہوش کے ناخن لے صحافی تنظیموں کے تحفظات کو سمجھے وگرنہ ہمیشہ ایسے قانون بنوانے والوں کے خلاف ہی استعمال ہوئے ہیں۔حکومت سمجھےہر طرح کا کانٹینٹ پروڈیوسر صحافی نہیں ہے ویسے ہی پروفیشنل صحافیوں کو کٹہروں اور ٹربیونلزکے سامنے ملزم یا مجرم بنا کر پیش ہونے کے عمل سے ڈرایا نہیں جا سکتا ہمارے بڑوں نے تو حق سچ کی لڑائی میں کوڑے کھائے ہیں۔‘‘

’ہتک عزت کیس‘کے خلاف عدالت جانے والے وکلا ندیم سرور اور شہباز اکمل جندران اسے انتہائی غیر منصفانہ قانون قرار دے رہے ہیں اوراپنے کلائنٹس کی اس کوشش کو ہر پاکستانی کی لڑائی، ان کے آزادی اظہار کی لڑائی ،ان کے کاروبار کے تحفظ کی لڑائی سمجھتے ہیں۔قانون کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیتے یوئے شہباز اکمل جندران کہتے ہیں’’قوانین شہریوں کے تحفظ کے لئے بنائے جاتے ہیں ناکہ انہیں پابند سلاسل کرنے کے لئے۔ ہم نے چار مارشل لائوں میں ایسے قوانین بنتے نہیں دیکھے جو ہمیں ہماری منتخب کردہ جمہوریت دکھا رہی ہے۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل (انیس) آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے تو آرٹیکل (اٹھارہ) کاروبار کے تحفظ کا ۔۔۔اب اس قانون کی طرف آئیے جیسے ہی کوئی شخص کہے گا اس کے خلاف لگائی گئی خبر جھوٹی ہے اس پر یہ تک بار نہیں کہ وہ ثابت کرے کیسے جھوٹی ہے کہ اس قانون کے سیکشن اکیس (دو) کے تحت وہ اخبار،ریڈیو ،ٹی وی چینل۔یوٹیوب چینل،سوشل میڈیا اکائونٹس سب فوری بند کر دیں گےیا کر سکتے ہیں۔ٹربیونلز اتنے خود مختار ہیں کہ عدالتیں نوٹس نہیں لے سکتیں۔ ہم پاکستاںیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو کیسے کمپرومائز کر کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔؟فیک نیوز سمیت بے لگام سوشل میڈیا کو مانیٹر کرنا اور کسی دائرہ میں لانا یقینا ضروری ہے لیکن صحافیوں کو ہتھکڑٰیاں لگا کر حکومت اپنا ایک اہم ہمدرد کھو دے گی۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں