میاں صاحب ۔۔۔۔جان دیو

نواز شریف کی تقریروں کے تسلسل نے سننے اور دیکھنے والوں کو بور کر دیا ہے،وقت آگیا ہےوہ کچھ نیا ،کچھ اچھاکہیں ۔
نوشین نقوی ۔لاہور

لگتا ہے میاں صاحب نے یہ عہد کرلیا ہے کہ کہانی وہیں سے شروع ہو گی جہاں ختم ہوئی تھی یا ان کے خیال میں جہاں ان کے جانے سے وقفہ آیا تھا۔تو میاں صاحب ایسا نہیں ہوتا زندگی کے اچھے برے واقعات میں ریورس کا بٹن نہیں ہوتا ۔خان صاحب جیل میں اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں آپ کے دور حکومت میں سیاسی قید و بند عام سی بات ہے آپ تو ماضی میں زرداری صاحب کی زبان تک کاٹ کے ان کے ہاتھ میں پکڑا چکے ہیں تو اب تھوڑا حوصلہ کریں ۔ٹھنڈے سانس لیں اور اس انتقامی طبیعت اور کیفیت کو خدا حافظ کہہ دیں۔
ابھی کل ہی آنکھوں نے یہ منظر دیکھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائداورسابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 6 سال بعد ایک بار پھر پارٹی کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔اچھا سیٹ لگایا ،گھرباہر والے سب اکٹھےکئے انہوں نے خود کوایک بار پھر پر جوش انداز میں بلامقابلہ مرکزی صدر منتخب کرایا ۔ چیف الیکشن کمشنر مسلم لیگ (ن) رانا ثنا اللہ کی جانب سے جنرل کونسل اجلاس میں ان کے بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب ہونے کا اعلان کیا گیا۔خوب تالیاں بجیں۔سب نے آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کی۔اس کے باوجود کہ کوئی خاص ضرورت تھی نہ ہی کوئی بڑی رکاوٹ۔احسن اقبال نے جنرل کونسل اجلاس میں قرارداد پیش کی، قرار داد کے مطابق اجلاس نوازشریف کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔پھر وہی دکھڑے روئے گئے کہ نوازشریف کو 2017ء میں سازش کے ذریعے جبری طور پراقتدار سے علیحدہ کیا گیا تھا۔
قرارداد کے مطابق اللہ کے فضل سے قائد نوازشریف سرخرو ہو چکے اور اب نوازشریف نے پارٹی کی صدارت واپس سنبھال لی ہے۔ جنرل کونسل کے اجلاس میں ان کی ’ولولہ انگیزقیادت ‘ میں عوامی مقبولیت کی نئی جہتیں طے کرنے کا اعادہ بھی کیا گیا۔اجلاس میں بار بار میاں صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کی روایت پر عمل بھی ہوتا رہا ۔
مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل اجلاس میں قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف بقلم خود خاندان کے دیگر افراد جن میں وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف سمیت دیگرپارٹی رہنما شریک ہوئے سب نے مہر ثبت کی کہ میاں صاحب کو’غلط‘ نکالا گیااور اب ان کی’ ٹھیک ٹھاک‘ واپسی ہوگئی ہے۔
اسی دوران جب میاں نواز شریف اسٹیج پر آئے تو ’لاکھوں‘ نظریں اسکرین پر ان سے کچھ نیا سننے کو جم گئیں۔لیکن مسلم لیگ ن کے صدر نے جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےاپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا پورا ذمہ دار ثاقب نثار کو ٹھہرایا۔کہنے لگے ’ثاقب نثار نے مجھے زندگی بھر کے لئے صدارت سے ہٹا دیا تھا،آپ نے میرے صدر بننے پر خوشی نہیں منانی، ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈالنے پرخوشی منانی ہے۔‘جنرل باجوہ کا ذکر تک گول کر گئے۔انہوں نے کہا ’مجھے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر صدارت سے ہٹایا گیا، بھئی! تمہارے بیٹے سے تو تنخواہ نہیں مانگی تھی۔‘

بڑے میاں صاحب نے جوابی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حالیہ وزیراعظم شہباز شریف کودل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا’بہت اتار چڑھاؤ آئے مگر شہبازشریف استحکام کے ساتھ کھڑے رہے، شہبازشریف پارٹی کے امتحان پر پورا اترے، بہت سارے لوگوں نے ہمارے رشتے میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی۔مجھے شہبازشریف پر ناز ہے، شہبازشریف نے ذمہ داری پھر میرے کندھوں پر ڈالی ہے۔‘
نوازشریف نے کہا ’وفا کے جرم میں شہبازشریف جیل تک گئے اُف تک نہیں کی، ہمارا رشتہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔‘لگے ہاتھوں انہوں نے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو بھی سراہا ڈالا’مریم نواز نے بھی کڑے وقت میں پارٹی کو متحرک رکھا، مریم نواز بھی ہر امتحان میں پورا اتریں۔‘‘انہوں نے اپنے بھتیجےحمزہ شہباز کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے جواں مردی کے ساتھ جیل کاٹی، کبھی اُف تک نہیں کی۔
انہوں نے باقی ماندہ وقت میں کہا کہ سب سے زیادہ مبارکباد کے مستحق کارکن ہیں۔رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی، اسحاق ڈار، احسن اقبال، خواجہ آصف اور ہمارے دوست شاہد خاقان عباسی نے بھی مصیبتیں برداشت کیں۔
نوازشریف کا کہنا تھا کہ 2017ء میں جو کچھ ہوا قوم کو پتہ چلنا چاہئے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں اس وقت کوئی کشکول نہیں تھا، ہم نے اس وقت سب کچھ اپنے وسائل سے کام کئے تھے، ہماری حکومت نے کراچی کا امن بحال کیا تھا، 1947ء سے لیکر 2024ء تک کسی نے کوئی موٹروے بنائی تو دکھائے۔اپنے ممکنہ عزائم کو ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ ہم نے مسلم لیگ (ن) کومنظم کرنا ہے، یہ مسلم لیگ(ن)نہیں پاکستان کا مشن ہے، وعدہ کرکے جائیں اس حوالے سے میرا ساتھ دوگے۔‘
صدر ن لیگ نے کہا بانی پی ٹی آئی نے جن لوگوں کی مدد سے ہماری حکومت کو گھر بھیجا، اور ہمیں کہا رسہ ڈال کر تمہیں اقتدار سے نکالیں گے، بانی پی ٹی آئی امپائرکی انگلی کا ذکر کرتے تھے کیا یہی انگلی تھی۔
جاتے جاتے انہوں نے کہا کہ ’ہم تو 28 مئی والے ہیں ہم 9 مئی والے نہیں ہیں۔
میاں صاحب بس کر دیں ۔آگے بڑھیں ۔آپ کی باتوں کا تسلسل اب بورنگ ہونے لگا ہے کچھ اچھا کہیں ۔۔کچھ نیا ہوجائے۔ویسے یہ گرمیوں میں اسکارف والا آئیڈیا کس کا تھا؟

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں