مانیں یا نہ مانیں ۔۔۔اسرائیل ایک حقیقت ہے

فلسطین کو سانس لینے دیں،آگ کو مزید نہ بھڑکائیں،جنہوں نے بھڑکانے والوں کے بنا اکیلے لاشیں اٹھائیں انہیں امن کی صبح دیکھنے دیں خواہ وہ وقتی ہی کیوں نہ ہو۔
نوشین نقوی

غیر جانبداری سے دیکھیں تو فلسطینیوں کے پاس اب گنوانے کے لئے بھی کچھ نہیں بچا۔اسرائیل خود سے ہزاروں میلوں کی دوری پر موجود دنیا میں اپنے اکلوتے اعلانیہ اتحادی امریکہ کے ساتھ مشرق وسطی میں بڑی حقیقت بن چکاہے۔۔۔
صرف میں نہ مانوں کی رٹ لگانے سے حقائق تبدیل ہوتے ہیں نہ ہی جغرافیہ۔۔آپ اپنے ہمسائے کے وجود سے لاکھ انکار کرتے رہیں مگر جو ہے وہ ہے۔عرب ممالک نے انتہائی دانشمندی سے رہے سہے فلسطین سمیت اپنا وجود بچایا ہے ورنہ عراق، شام یا یمن بننے میں دیر نہیں لگتی۔
مان لیں نئے اتحاد صرف معیشت کے سہارے پر بنیں گے یا فوج کی طاقت پر۔۔۔ مذہب کے نام پہ شام، ایران،عراق اور یمن سمیت فلسطین اور کشمیر کو مسلمانوں نے مرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔آج امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کومعاہدے کو جانے بغیر تنقید کرنےوالوں نے کہاں فلسطینیوں کے لئے کوئی عملی کوشش کی۔؟

U.S. President Donald Trump gestures next to Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu at Ben Gurion International Airport as Trump leaves Israel en route to Sharm El-Sheikh, Egypt, to attend a world leaders’ summit on ending the Gaza war, amid a U.S.-brokered prisoner-hostage swap and ceasefire deal between Israel and Hamas, in Lod, Israel, October 13, 2025. REUTERS/Evelyn Hockstein

دعا کریں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن معاہدہ پورا ہو اس کے ثمرات فلسینیوں تک پہنچیں اور یہ نا حق قتل و غارت کا سلسلہ ختم ہو ورنہ یہ سوچ کے جھر جھری آجاتی ہے کہ بیس اسرائیلوں کے بدلے میں دو ہزار فلسطینی بنتے ہیں۔
دوسری جانب اگر مان بھی لیں کہ یہ محض جنگ کا درمیانی وقفہ ہے تب بھی فلسطینیوں کو اس وقفے کی ضرورت ہے۔۔ایک ہی اسٹیج پر کھڑے ہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس کو جس ’زبان‘ میں سمجھ آتی تھی اچھی طرح ’سمجھا‘ کے امن قائم کروانے کی طرف قدم اٹھایا ہے۔۔۔
اب ہمسایوں اور ضامنوں کو چاہئےمذہبی شرانگیزیوں کی پروا نہ کریں دونوں فریقین کے مناسب تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے مشرق وسطی کے نئے جغرافیہ کو بنانے میں مدد کریں۔اور یاد رکھیں جو جغرافیہ آپ بنائیں گے وہ آپ قبول بھی کریں اس میں راکٹ سائنس نہیں۔
ایک طرف ہم جیسے مسلمان ممالک ہیں جنہیں جیسے ہی امن معاہدے کا پتا چلا ہم سڑکوں پر ٓگئے کسی نے اس درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جو فلسطینوں یا جنگ سے متاثرہ دوسرے فریق اسرائیلیوں نے سہا ۔ہم جنگ پسند معاشروں کے شدت پسندوں کو اپنی ادائوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس کے برعکس اسرائیلی قیدیوں کی 736 دن بعد رہائی پر عوام کا غصہ پھٹ پڑا، تل ابیب اور یروشلم میں جمع ہونے والے سیکڑوں اسرائیلیوں نے سوال اٹھا دیے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی شہریوں نے سوال کیا کہ یہ سب اتنی دیر سے کیوں ہوا؟ معاہدہ پہلے ہوجاتا تو زیادہ قیدی زندہ ہوتے اور ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔

خیال رہے کہ غزہ امن منصوبے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو چکاہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل انتونیو گوتیرس نے غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس پیش رفت پر آگے بڑھیں اور جنگ بندی کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں