فیض‘ پہ خاموش رہو۔۔۔۔
ایک بار پھر بڑے میاں صاحب نے اپنی جماعت کو فوجی معاملات میں گھسنے سے روک دیا۔ماضی میں بھی انہوں نے قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنشن کے وقت ان کےحق میں ووٹ ڈالنے کا ’حکم نامہ‘جاری کیا تھا۔ شہباز اسٹیبلشمنٹ سے وفا نبھانے کو پر عزم اور خان اپنے ’اثاثے ‘بچانے کو بے چین۔۔۔۔
نوشین نقوی
صدر مسلم لیگ (ن) میاں نوازشریف نے فیض حمید کیس اور اس سے متعلقہ معاملات پر اپنی جماعت کے رہنماؤں کو کسی بھی قسم کے بیانات دینے سےایک بار پھر روک دیا ہے ۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں میاں نواز شریف کی زیر صدارت پارٹی کا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، حمزہ شہباز، رانا ثنا اللہ، سلمان شہبازسمیت وفاقی وزراء احسن اقبال، عطا تارڑ، اویس لغاری، خواجہ آصف، علی پرویز ملک ، بلال اظہر کیانی سمیت پرویز رشید، مریم اورنگزیب اور راشد محمود لنگڑیال شریک ہوئے ۔

ایک بار پھر بڑے میاں صاحب نے اپنی جماعت کو فوجی معاملات میں گھسنے سے روک دیا۔ماضی میں بھی انہوں نے اپنے شدید مخالف قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنشن کے وقت حق میں ووٹ ڈالنے کا ’حکم نامہ‘جاری کیا تھا۔جس پر لے دے ہوئی لیکن میاں صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔۔۔ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر باجوہ صاحب کو ایکسٹینشن دی اور تقریروں میں ان کی مخالفت جاری رکھی۔
ن لیگ کی خوبی کہیں یا خامی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخالفت کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ تاج وہی پہنائیں گے۔ن لیگ سارا کھیل تیار کرلے اسٹیبلشمنٹ کو سونپتی ہے اسی میں سے اپنا حصہ لیتی ہے اور خود کو خود ہی رام پیارا سمجھ کے من ہی من میں مسکراتی رہتی ہے۔
اجلاس کے دوران جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے فوجی اعلان کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر بحث کی گئی، سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی گرفتاری کے بعد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر آنے والے دباؤ پر بھی انہوں نے آپس میں ہی تبادلہ خیال کیا ۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ تمام پارٹی رہنما جذباتی بیانات دینے سے گریز کریں، ن لیگ کے اجلاس میں حکومت(جو کہ وہ خود ہی ہیں) اور اسٹیبلشمنٹ (جن کا ہمیشہ انہوں نے ساتھ دیا ہے )کا بھرپور ساتھ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اس موقع پرسب سے بہتر بیان وزیراعظم شہباز شریف کا تھا جنہوں نے کہا کہ ’ہم درست سمت کی طرف چل پڑے، اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے تمام فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور مل کر فیصلے کر رہے ہیں۔‘اس کے باوجود کے ان سے کسی مخالفت کی امید کبھی نہیں رہی مگر وہ ہر موقع پر آگے بڑھ کر اپنی وفا کا یقین دلاتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان نےاڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے جہاں ایک طرف جنرل فیض حمید سے نیم اعلان لا تعلقی کیا وہیں واضح الفاظ میں انہیں اپنا قیمتی اثانہ بھی قرار دیا ۔
انہوں نے کہا ’فیض حمید سے فوج تفتیش کر رہی ہے، یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے مجھے اس سے کیا؟ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا احتساب کر رہے ہیں اچھی بات ہے لیکن پھر سب کا احتساب کریں۔یعنی اگر میرے ’اثاثہ‘ کا احتساب کریں تو پھر سب کا کریں ۔ جنرل باجوہ نے نواز شریف اور شہباز شریف کے کہنے پر جنرل فیض کو ہٹایا ، جنرل فیض حمید کو ہٹانے پر میری جنرل باجوہ سے سخت تلخ کلامی ہوئی ۔
خان صاحب ہی کیا ،ہمارے تمام سیاست دان خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ایکسٹشن ڈے پر فل ہائوس حاضری دیتے ہیں مگر وہیں عوامی مسائل کی بات ہو تو سب شورشرابا اور بائیکاٹ کی نظر ہو جاتا ہے۔






