افریقی ملک کیمرون میں رات کی تاریکی میں متعدد ہلاکتوں کا معمہ ۔۔۔۔

سمجھ سے باہر ہے،یہ قدرتی آفت ہو گی یا زہریلی گیس۔۔۔بس ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھی
یہ 21 اگست 1986 کی بات ہے۔ صبح ہوتے ہی شمال مغربی کیمرون کے متعدد گاؤں کے مکینوں کو بیدار ہونے پر پتا چلا کہ ان کے بہت سے دوست اور پڑوسی رات کی تاریکی میں مر چکے ہیں۔


ویب ڈیسک (یہ پاکستان )دُنیا بھر میں متعدد ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کے بارے میں بہت سے سوالات نے جنم لیا لیکن ان کے جوابوں کے لیے آج بھی ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ افریقی مُلک کیمرون میں بھی پیش آیا کہ جہاں ایک تاریک رات میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔
کیمرون میں اُس رات اس پراسرار واقعے میں بچ جانے والے ایک عینی شاہد نے بتایا کہ ’رات کے تقریبا گیارہ بجے جب میری آنکھ کُھلی، تو میں اپنے حواس میں ہونے کے باوجود بستر سے اُٹھنے کے قابل نہیں تھا۔ میری طبعیت ایک عجیب سی اُلجھن کا شکار تھی، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔
یہ 21 اگست 1986 کی بات ہے۔ صبح ہوتے ہی شمال مغربی کیمرون کے متعدد گاؤں کے مکینوں کو بیدار ہونے پر پتا چلا کہ ان کے بہت سے دوست اور پڑوسی رات کی تاریکی میں مر چکے ہیں۔
عینی شاہد نے بتایا کہ ’جب صبح میں اپنے گھر سے باہر نکلا تو گلی اور محلے میں کئی لوگ بے ہوشی کے عالم میں پڑے تھے۔ ان میں سے بہت سے مر چکے تھے۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اُس رات ہمارے گاؤں میں 75 لوگ ہلاک ہوئے۔تاہم کہا یہ جاتا ہے کہ اُس تاریک رات میں ہلاک ہونے والوں کی بتائی جانے والی تعداد سے مجموعی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
اس رات ہوا کیا تھا، تو ماہرین نے اس کے جواب میں کہا کہ اُس رات آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے کی وجہ سے بننے والے گڑھے میں ایک جھیل سے آنے والی زہریلی گیسوں نے یہ سب کیا۔بتایا جاتا ہے کہ اس جھیل سے اُٹھنے والی زہریلی گیسوں کی وجہ سے 1746 افراد اُس ایک رات میں ہلاک ہوئے اور یہ معاملہ یہاں رُکا نہیں بلکہ اس میں تقریباً 3،500 مویشیوں بھی ہلاک ہوئے۔
ہلاک ہونے والے یہ تمام لوگ نائجیریا کے ساتھ ملک کی سرحد کے قریب جھیل نیوس کے آس پاس کے گاؤں میں رہتے تھے۔یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ کیمرون کے صدر نے بین الاقوامی دُنیا سے مدد کی اپیل بھی کی۔

تحقیقات کے مطابق۔۔۔
کئی ہفتوں تک یہ جاننے کی کوشش کی جاتی رہی کہ آخر ہوا کیا۔ اس علاقے میں ہونے والی تحقیق میں دُنیا بھر سے سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان میں برطانوی ڈاکٹر پیٹر بیکسٹر بھی شامل تھے جو اس سانحے کے تقریباً دو ہفتے بعد اس علاقے میں پہنچے تھے۔بیکسٹر نے بتایا کہ ’جب وہ وہاں پہنچے تو تب بھی پہاڑوں پر لوگوں اور جانوروں کی لاشیں ہر جانب بکھری پڑی تھیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم نیوس کے گاؤں میں پہنچے، جس میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے گھر تھے، وہاں مکمل خاموشی تھی، زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ’’ جب ہم جھیل نیوس کے قریب پہنچے، جو ایک چھوٹی سی پہاڑی پر چڑھنے کے بعد آتی ہے تو ہم نے دیکھا کہ پانی پرسکون ہے مگر جھیل کے اس پُرسکون پانی کی سطح پر متعدد مردہ مچھلیاں، اور اس کے کناروں مردہ اور بے جان پودوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔‘‘

ڈاکٹر پیٹر کا کہنا ہے کہ ’اس جھیل کے کناروں اور پانی میں اگر ہمیں کوئی چیز زندہ دکھائی دی تو وہ مینڈک تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سخت جان ہوتے ہیں۔امریکہ کی مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر جارج کلنگ کو بھی اس تحقیق میں مدد کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم جھیل نیوس پہنچے، تو اس منظر کی وجہ سے مُجھ پر سکتہ طاری ہو گیا، میرا جسم ٹھنڈا ہونے لگا، ہر جانب موت دکھائی دے رہی تھی، اس گاوں میں ہر جانب لوگ اور تمام جانور مر چکے تھے۔اُنھوں نے مزید کہا کہ ’وہاں ہر جانب بس خاموشی تھی، زندگی کے تو آثار نہیں تھے بس عمارتیں اس واقعے کی وحشت بیان کر رہی تھیں، اس گاوں کی خاموشی بہت تکلیف دہ تھی، یہاں کسی طوفان یا سیلاب یا اس طرح کی کسی اور قدرتی آفت کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
جارج کلنگ نے بات آگے بڑھائی اور کہا کہ ’ہم نے تباہی کا منظر دیکھا۔ تباہی سے پہلے، جھیل ایک بہت ہی خوبصورت جگہ تھی، جس کا پانی انتہائی صاف اور شفاف تھا۔ ایک سال پہلے یہ وہی جھیل تھی کہ جس میں ہم تیراکی کر رہے تھے لیکن اب سب وہاں ایسا کُچھ بھی نہیں تھا، اس جھیل کے پانی کو دیکھ کر ایک عجیب سے وحشت طاری ہو رہی تھی یہاں اب سب کُچھ مختلف تھا۔
پروفیسر جارج یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جھیل کی سطح کے پانی کی رنگت سرخ اور بھوری دکھائی دے رہی تھی، اس میں بہت سارے پودے تیر رہے تھے۔ یہ پودے جھیل کے کناروں سے اس میں پیدا ہونے والی بڑی لہروں کی وجہ سے ٹوٹ کر اس میں شامل ہوئے تھے، اس جھیل میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کی وجہ سے اس میں پائی جانے والی تمام نباتات تقریباً ختم ہو چُکی تھیں۔
بس ایک معمہ۔۔۔جو کبھی حل نہیں ہوگا۔۔۔
شواہد سے پتا چلتا ہے کہ جھیل کی تہہ میں تبدیلی کے نتیجے میں تقریبا 40 میٹر اونچی لہر پیدا ہوئی تھی لیکن ابھی تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا تھی اور اس علاقے کے سیکڑوں رہائشیوں کی موت کیوں اور کیسے ہوئی۔
تاہم، ایک مشتبہ بات جو سامنے آئی یا جس کا ذکر بار بار ہو رہا تھا وہ یہ تھی کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہلاکتیں آتش فشاں پھٹنے سے خارج ہونے والی گیسوں کی وجہ سے ہوئیں تاہم پیٹر بیکسٹر اس بات کے شواہد یا نشانات کی کمی کی وجہ سے انتہائی حیران تھے۔
انھوں نےکہا کہ ’آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے کسی بڑے دھماکے کی کوئی اطلاع نہیں تھی اور نہ ہی اس تباہی کے آثار تھے کہ جو آتش فشاں کے پھٹنے کی صورت میں پیدا ہوئے ہوں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک ایسی صورتحال کا سامنا کر رہے تھے جہاں بہت سے لوگوں کی موت ہو گئی تھی لیکن زمین اور ان عمارتوں کو بہت کم نقصان پہنچا تھا جس میں وہ رہتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں