خواتین کے خلاف منظم متشدد رویہ۔۔۔۔
جن سے خواتین کے مسائل پر لکھا گیا محض ایک مضمون برداشت نہیں ہوتا
وہ حقوق کے حصول کی لڑائی کا مذاق ہی اڑا سکتے ہیں۔
نوشین نقوی
غیر سرکاری تنظیم پاپولیشن کونسل کے مطابق دو ہزار پندرہ میں پیش کی جانی والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی ا موات کی شرح ایک لاکھ میں سے 276 ہے اور یہ شرح گزشتہ ایک دہائی سے ہنوز برقرار ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں جہاں وقتا فوقتا صحت کی صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے،مگر رسم و رواج اور دیگر رکاوٹوں کی بنیاد پر تا حال کوئی خاص بہتری نظر نہیں آتی۔جب کے پسماندہ علاقوں میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔جیسا کہ بلوچستان میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات 700 سے زیادہ ہے۔سرکاری رپورٹس کے مطابق پاکستان کی 170 خواتین میں سے ایک کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں جرم جس بلندی پر بھی پہنچ جائے پورے دھڑلے سے اس کی صحت سے انکار کرنا فرض سمجھا جاتا ہے خاص طور پر اگر وہ جرم خواتین یا معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف ہو تو سیدھا سیدھا ’میں نا ں مانوں‘ کی رٹ پکڑ لی جاتی ہے ۔ ہم اقلیتوں کے خلاف متعصب رویے سے لے کر خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات سے بھی انتہائی وٹوک انداز میں انکاری ہو جاتے ہیں۔بات یا بحث کا کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑتے بلکہ سرے سے یہ ماننا ہی نہیں چاہتے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے بھیانک واقعات رونما ہوتے ہیں۔
نامور گائنا کالوجسٹ اور مصنفہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی دوران زچگی خواتین کے تجربات پر کھل کر لکھتی رہتی ہیں حال ہی میں ان کے لکھے ایک مضمون نے جیسے جلتی پرتیل کا کام کیا۔۔۔
انہوں نے اپنے مضمون ”ویجائنا پر تالالگا ہے“میں لکھا”مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ بیوی کی اوقات سمجھتے ہیں گائے بھینس جیسی اور بسا اوقات اس سے بھی کم۔ سو اس جنونی مالک کو ضرورت ہے پہرے داری کی تاکہ جانور کوئی اور کھول کر لے جا نہ سکے۔ جیسا کہ بیوی نامی ملکیت بھی شامل ہے اس فہرست میں۔سو ویجائنا کو شوہر نے لگایا تالا، تاکہ عدم موجودگی میں ویجائنا رہے مقفل اور کوئی دیکھ نہ سکے۔ بیوی ملکیت تو ہے ہی لیکن تالہ بندی کے معنی بے اعتبار ی کے بھی ہیں۔ کیا خبر موقع ملتے ہی ناہنجار عورت کیا کر گزرے؟ سو اسے لاکر کی طرح بند کرکے رکھنا نہایت ضروری۔ چابی سے ویجائنا نامی لاکر کا تالا شوہر اس وقت کھولے گا جب اس نے بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا ہو۔ ازدواجی ضرورت کے بعد پھر سے تالہ بندی۔ نازک اعضا پہ لٹکتا ہوا تالہ عورت کے لیے کتنا تکلیف دہ ہے یہ سوچنے یا سمجھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔ غیر اہم چیز کے لیے یہ فعل ظلم ہے، یہ بھی کیوں مانا جائے؟ عورت جب ڈاکٹر کے پاس آئے تب بھی تالہ لگا ہوا ہو … اگر ڈاکٹر معائنہ کرنا چاہے تو ساتھ میں بھیجی محافظ عورت چابی سے پہلے تالہ کھولے اور پھر ڈاکٹر تک پہنچنے کی نوبت آئے۔“
بشکریہ:ہم سب(ویب سائٹ)
ڈاکٹرطاہرہ کاظمی کایہ مضمون منظر عام پر آنے کی دیر تھی کہ یہ ہمیں اپنے قبائلی نظام سے لیکر روایات تک سب پر ایک خود کش دھماکہ محسو س ہوا۔۔۔وہ بھی رکی نہیں اور اپنے فیس بک اکائنٹ پر مزید کئی سوال کر ڈالے۔۔
”میں اپنی پوسٹ پر بے شمار بھائیوں کو ہری مرچ کھا کر اچھلتا کودتا دیکھ رہی ہوں۔
میں نے اپنے مضمون میں نہ پشتون کا نام لیا ہے نہ فاٹا کا۔
قبائل کا نام لیا ہے جو پاکستان کے ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں اور witness ڈاکٹرز نے جگہوں کے نام بھی بتائے ہیں جن میں ژوب، سندھ اور ملتان شامل ہیں۔
اگر ڈاکٹرز نے یہ چیز دیکھی ہے اور اس کو ہائی لائٹ کرنا چاہا ہے تو اسے جھٹلایا کیوں جا رہا ہے؟
کیا پاکستان میں عورت کاری نہیں ہوتی؟ سنگ سار نہیں ہوتی؟
ونی نہیں ہوتی؟
قبر میں مردہ بھی پڑی ہو تو ریپ نہیں ہوتی؟
بچی ہو تو molest نہیں ہوتی؟
کوڑے کے ڈھیر پہ اس کی لاش نہیں ملتی؟
کنوار پن کا ثبوت سفید چادر پہ لال دھبوں کی صورت میں نہیں دیتی؟
اس پہ آپ سب خاموش کیوں رہتے ہیں تب مختلف اقوام یا قبائل کے جذبات ہرٹ کیوں نہیں ہوتے؟
جواب دیجیے؟ “
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی بڑی غلطی تو یہ بھی ہے کہ وہ اس سماج سے سوال کر رہی ہیں جو بنیادی طور پر سوال کرنے واالے کا سر قلم کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔
سماجی رہنما اور انسانی حقوق کے لئے ایک مضبوط آواز کے طور پہ جانی جانے والی جلیلہ حیدر نے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے بطور گائنا کالوجسٹ تجربے کوبیان کرنے پر سراہا اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤ نٹ پر لکھا”
خاتون کے ویجائنا پر تالا لگا ہو یا نہ لگا ہو، خاتون کے ویجائنا سے جڑے دقیانوسیت، ظلم جبر اور اس پر کنٹرول کو تو آپ بھی رد نہیں کرسکتے۔ اب بات ذاتی تجربوں کی ہے تو میں بھی ایک تجربہ بتاتی ہوں:
کوئی نو سال قبل ہمارے پاس ایک خاتون کے قتل کا کیس آیا جس میں شوہر نے صرف اس بنیاد پر بیگم کو قتل کیا تھا کہ جب شوہر گاؤں سے باہر گیا تھا تو بیوی نہائی تھی اور کپڑے بدلے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر ملزم نے بتایا کے ہمارے پورے برادری میں ایسا کھبی نہیں ہوا کہ شوہر موجود نہ ہو بیوی نہائے۔ اسکا مطلب ہے کہ بیوی کسی کے ساتھ ضرور سوئی ہوگی منہ کالا کیا ہوگا۔ جبکہ عینی گواہ جس میں ایک خاتون شامل تھی نے بتایا کہ عورت کا پاؤں گھر کے سامنے والی نالی میں گئی تھی جس پر وہ نہائی تھی۔“–جی ہاں ہمارے ہاں ویجائنا پر تالے نہیں لگاتے ڈائرکٹ قتل کرتے ہیں۔ “
جب کہ دوسری جانب ایک بڑا حلقہ اس تحریر کوپاکستان کے روایتی معاشرے پر حملہ قرار دے رہا ہے۔۔معروف وکیل اور ویب سائٹ ”مکالمہ“ کے بانی انعام رانا اپنے فیس بک اکاؤ نٹ پر لکھتے ہیں
”قبائلی عورت کی وجائنا پہ تالہ ہے، چیف جسٹس نوٹس لیں۔ انعام رانا
جناب چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان
مجھے علم ہے کہ آپ ملک کی سیاسی صورتحال و دیگر مسائل کی وجہ سے بہت مصروف ہیں لیکن میں آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم مسئلہ کی جانب دلانا چاہتا ہوں جو اپنے حساس ہونے کی وجہ سے آپ کے فوری نوٹس کا متقاضی ہے۔“
بہت سے اہم اور غیر اہم موضوعات کی طرح سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اس موضوع پر بھی تقسیم ہو چکے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں حقائق کو جھٹلانا یا نظر چرانا سب سے آسان کام ہے اور سب کے لئے محض اپنا پیش کیا گیا سچ ہی اہم ہے۔ڈاکٹر طاہرہ کے الفاظ آپکی خواہش اور سوچ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔۔مگر کیا آپ کے پاس ان کے ان سوالوں کے جواب ہیں۔
”مجھے جھوٹا قرار دینے والے حضرات سے سوال؟
کیا آپ نے کبھی لیبر وارڈ میں زچگی ہوتی دیکھی ہے؟
کیا آپ کو علم ہے کہ اسقاط میں کیا ہوتاہے؟
کیا آپ کو علم ہے کہ الٹا بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب بچے کے کندھے ویجائنا میں پھنستے ہیں تب کیا کیا جاتاہے؟
کیا آپ نے ختنوں کے بعد سلی ہوئی ویجائنا دیکھی ہے؟
کیا آپ نے ویجائنا کے راستے انتڑیاں باہر لٹکتی دیکھی ہیں؟
کیا آپ نے سہاگ رات کے بعد پھٹی ہوئی ویجائنا دیکھی ہے؟
مان لیجیے کہ عورت کے بارے میں آپ لوگوں کا علم بہت ناقص ہے۔۔“
ٌٌٌ۔۔۔۔۔۔







